Monday 17 August 2015

اس سے نالاں تھے فرشتے وہ خفا کس سے تھا

اس سے نالاں تھے فرشتے وہ خفا کس سے تھا
اختلاف اس کا خداؤں کے سوا کس سے تھا
یوں تو محفوظ رہے ذہن میں لاکھوں الفاظ
یاد آیا نہیں، دروازہ کھلا کس سے تھا
میرے بارے میں بڑی رائے غلط تھی اس کی
جانے وہ میرے تصور میں مِلا کس سے تھا
جانے تا عمر اسے کس نے اکیلا رکھا
جانے اس شخص کا پیمانِ وفا کس سے تھا
وہ اگر دور تھا مجھ سے تو تھی قربت کس سے 
وہ مرے پاس اگر تھا تو جدا کس سے تھا
لاکھ شکوہ ہو سماعت کو صدا سے آزر
روکتا کون کسے کوئی رکا کس سے تھا​

فریاد آزر

No comments:

Post a Comment