Sunday 23 August 2015

جگر کے ٹکڑے ہوئے جل کے دل کباب ہوا

جگر کے ٹکڑے ہوئے جل کے دل کباب ہوا
یہ عشق، جان کو میرے کوئی عذاب ہوا
کِیا جو قتل مجھے، تم نے خوب کام کیا
کہ میں عذاب سے چھوٹا، تمہیں ثواب ہوا
کبھی تو شیفتہ اس نے کہا، کبھی شیدا
غرض کہ، روز نیا اک مجھے خطاب ہوا
پیوں نہ رشک سے خوں کیوں نہ دم بہ دم اپنا
کہ ساتھ غیر کے، وہ آج ہم شراب ہوا
تمہارے لب کے لبِ جام نے لیے بوسے
لب اپنا کاٹا کیا میں نہ کامیاب ہوا
گلی گلی تِری خاطر پھرا بچشمِ پُر آب
لگا کے تجھ سے دل اپنا بہت خراب ہوا
تِری گلی میں بہائے پھرے ہے سیلِ سَرَشک
ہمارا کاسۂِ سر کیا ہوا، حباب ہوا
جواب خط کے نہ لکھنے سے یہ ہوا معلوم
کہ آج سے ہمیں اے نامہ بر! جواب ہوا
منگائی تھی تِری تصویر دل کی تسکیں کو
مجھے تو دیکھتے ہی اور اضطراب ہوا
ستم تمہارے بہت، اور دن حساب کا ایک
مجھے ہے سوچ یہ ہی کس طرح حساب ہوا
ظفرؔ بدل کے ردیف اور تو غزل وہ سنا
کہ جس کا تجھ سے ہر اک شعر انتخاب ہوا

 بہادر شاہ ظفر

No comments:

Post a Comment