Friday 21 August 2015

تخت ہے اور کہانی ہے وہی

تخت ہے، اور کہانی ہے وہی
اور سازش بھی پرانی ہے وہی
قاضئ شہر نے قبلہ بدلا
لیکن خطبے میں روانی ہے وہی
خیمہ کش اب کے ذرا دیکھ کے ہو
جس پہ پہرہ تھا، یہ پانی ہے وہی
صلح کو فسخ کیا دل میں، مگر
اب بھی پیغام زبانی ہے وہی
آج بھی چہرۂ خورشید ہے زرد
آج بھی شام سہانی ہے وہی
بدلے جاتے ہیں یہاں روز طبیب
اور زخموں کی کہانی ہے وہی
حجلۂ غم یونہی آراستہ ہے
دل کی پوشاک شہانی ہے وہی
شہر کا شہر یہاں ڈوب گیا
اور دریا کی روانی ہے وہی

پروین شاکر 

No comments:

Post a Comment