Wednesday 19 August 2015

وہ عکس بن کے میری چشم تر میں رہتا ہے

وہ عکس بن کے میری چشمِ تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
پیام بر ہے وہی تو مِری شبِ غم کا
وہ اک ستارہ جو چشمِ سحر میں رہتا ہے
کھلی فضا کا پیامی، ہوا کا باسی ہے
کہاں وہ حلقۂ دیوار و در میں رہتا ہے
جو میرے ہونٹوں پہ آئے تو گنگناؤں اسے
وہ شعر بن کے بیاضِ نظر میں رہتا ہے
گزرتا وقت مِرا غمگُسار کیا ہوا
یہ خود تعاقبِ شام و سحر میں رہتا ہے
مِرا ہی روپ ہے تو غور سے اگر دیکھے
بگولہ سا جو تِری رہگزر میں رہتا ہے
نہ جانے کون ہے جس کی تلاش میں بسمل
ہر ایک سانس مِرا اب سفر میں رہتا ہے

بسمل صابری

No comments:

Post a Comment