Tuesday 11 August 2015

پائی نہ کوئی منزل پہنچیں نہ کہیں راہیں

پائی نہ کوئی منزل پہنچیں نہ کہیں راہیں
بھٹکا کے رہیں مجھ کو آوارہ گزر گاہیں
آلامِ زمانہ سے چھوٹیں تو تجھے چاہیں
مصروفِ مشقت ہیں حسرت سے بھری بانہیں
صحرا ہی سے گزری تھیں کھوئی گئیں جو راہیں
بتلائیں گے یہ چشمے، یہ بَن یہ چراگاہیں
شمشیر کی زَد پر ہیں کچھ اور ہمِیں جیسے
ہنگامِ تقاضا کیا، اے دل! وہ جسے چاہیں
کیا روپ بدلتے ہیں تصویر میں ڈھلتے ہیں
آنکھوں میں رکے آنسو سینے میں دبی آہیں
اب کون کہے تارا ٹوٹا تو کہاں پہنچا
آزاد کی ہر دنیا، برباد کی سو راہیں
اب نام غمِ دل کا تصویر و قلم تک ہے
طوفاں نے سفینوں میں ڈھونڈی ہیں پنہ گاہیں
تشہیرِ جنوں کہیے یا عرضِ سخن حقیؔ
ارزاں ہیں مِرے آنسو، رسوا ہیں مِری آہیں

شان الحق حقی

No comments:

Post a Comment