Wednesday 2 September 2015

دن سے ہو سکتا ہے کچھ رات سے ہو سکتا ہے

دن سے ہو سکتا ہے کچھ رات سے ہو سکتا ہے
مجھ کو شکوہ بھی تو حالات سے ہو سکتا ہے
آؤ ہم جھانکیں ذرا اپنے گریبان کے بیچ
معاملہ ٹھیک اسی بات سے ہو سکتا ہے
بیٹھ، چائے کی پیالی پہ ذرا بات کریں
فاصلہ کم یہ مساوات سے ہو سکتا ہے
تُو نے گنوائے میری ذات کے سو لاکھ عیوب
مجھ کو بھی رنج تیری ذات سے ہو سکتا ہے
یہ جو بگڑا ہوا اس شہر کا نقشہ ہے نا
اور ابتر بھی تضادات سے ہو سکتا ہے
تو جو ہر بات میں لے آتا ہے اسلام کو بیچ
ہاں تیرا ناتا مفادات سے ہو سکتا ہے
تیرا ہمسایہ اسی تاک میں بیٹھا ہوا ہے
فائدہ اس کو فسادات سے ہو سکتا ہے
دم نہیں ٹیڑھی تیرا سارا ہے کتا ٹیڑھا
یہ فقط سیدھا کرامات سے ہو سکتا ہے

رضا نقوی

No comments:

Post a Comment