اپنے ذہن کا اڑتا پنچھی کس منزل کا راہی ہے
چاہت، دولت، شہرت یارو سب سامانِ تباہی ہے
دین اور دنیا حد میں رہیں تو اپنی منزل دور نہیں
اور اگر حد سے گزریں تو دونوں میں گمراہی ہے
آنکھیں تو سب دیکھتی ہیں، کس راہ میں کتنے پتھر ہیں
بے شرمی کے موسم میں، احساس کے پانوْ جمیں کیسے
دل کے آنگن میں کیچڑ ہے، ذہنوں پر بھی کاہی ہے
گھر تو اک لوٹ کے جانا ہے ہر ایک مسافر کو
اس دنیا سے آخر کس نے کتنے روز نباہی ہے
چپہ چپہ دیواریں ہیں، قدم قدم پہ پہرے ہیں
دل بھی خالدؔ جیسے کوئی قصرِ شاہی ہے
امان اللہ خالد
No comments:
Post a Comment