Friday, 25 September 2015

شام عجیب شام تھی جس میں کوئی افق نہ تھا

شام عجیب شام تھی، جس میں کوئی افق نہ تھا
پھول بھی کیسے پھول تھے جن کو سخن کا حق نہ تھا
یارعجیب یار تھا جس کے ہزار نام تھے
شہر عجیب شہر تھا جس میں کوئی طبق نہ تھا
ہاتھ میں سب کے جِلد تھی، جس کے عجیب رنگ تھے
جس پہ عجیب نام تھے، اور کوئی ورق نہ تھا
جیسے عدم سے آئے ہو لوگ عجیب طرح کے
جن کا لہو سفید تھا، جن کا کلیجا شق نہ تھا
جن کے عجیب طور تھے جن میں کوئی کرن نہ تھی
جن کے عجیب درس تھے، جن میں کوئی سبق نہ تھا
لوگ کٹے ہوئے اِدھر، لوگ پڑے ہوئے اُدھر
جن کو کوئی الم نہ تھا، جن کو کوئی قلق نہ تھا
جن کا جگر سِیا ہوا، جن کا لہو بُجھا ہوا
جن کا رفُو کیا ہوا چہرہ بہت ادق نہ تھا
کیسا طلسمی شہر تھا، جس کے طفیل رات بھی
میرے لہو میں گرد تھی، آئینہ شفق نہ تھا

جمیل قمر

No comments:

Post a Comment