Wednesday, 30 September 2015

وہ پوچھتے ہیں ہجر میں ہے اضطراب کیا

وہ پوچھتے ہیں ہجر میں ہے اضطراب کیا
حیراں ہوں کہ دوں انہیں اس کا جواب کیا
دل، اور وہ بھی مِرا درد مند دل
تیری نگاہ نے کیا، یہ انتخاب کیا
جاتی نہیں خلش المِ روزگار کی
اے آسماں ہُوا وہ تیرا انقلاب کیا
نظارۂ جمال کی یاں تاب ہی نہیں
اے برقِ حسن چاہیے تجھ کو نقاب کیا
وعدہ بھی کر لو، وعدے پہ یاں آ بھی جاؤ تم
یہ سب سہی، تمہاری نہیں کا جواب کیا
بیش از گمانِ خواب نہیں فرصتِ حیات
فانیؔ تم اس خیال کو سمجھے ہو خواب کیا

فانی بدایونی

No comments:

Post a Comment