Friday 25 September 2015

عشق بول اٹھتا ہے اظہار وفا سے پہلے

عشق بول اٹھتا ہے اظہارِ وفا سے پہلے
دل دھڑکتا ہے نگاہوں کی صدا سے پہلے
یہ پشیماں سی نظر، یہ عرق آلود جبیں
تم نہ تھے اتنے حسِیں ترکِ وفا سے پہلے
سوچتے ہیں اسے کس نام سے منسوب کریں
رنگ آتا ہے جو اس رخ پہ حیا سے پہلے
میکدہ یوں نہیں ملنے کا تجھے اے واعظ
پوچھ رستہ مِرے نقشِ کفِ پا سے پہلے
لُٹ گیا قافلہ کیا کہیے کہ لُوٹا کس نے
راہ میں کوئی نہ تھا راہنما سے پہلے
چھُو کے اس عارضِ رنگیں کو ہُوا ہے معلوم
عشق ایک جُرمِ مسلسل تھا خطا سے پہلے
ان چراغوں کا مقدر بھی ہے کتنا تاریک
بجھ گئے جو تِرے دامن کی ہوا سے پہلے
سانس لینے کو سمجھتے ہیں حیات اے شاعر
لوگ واقف تو ہوں جینے کی ادا سے پہلے

شاعر لکھنوی

No comments:

Post a Comment