Tuesday, 29 September 2015

اک دامن رنگیں لہرایا مستی سی فضا میں چھا ہی گئی

اک دامن رنگیں لہرایا، مستی سی فضا میں چھا ہی گئی 
جب سیرِ چمن کو وہ نکلے پھولوں کی جبیں شرما ہی گئی 
یہ صحنِ چمن یہ باغِ جہاں خالی تو نہ تھا نکہت سے مگر
کچھ دامنِ گُل سے دور تھا میں، کچھ بادِ صبا کترا ہی گئی
احساس الم اور پاسِ حیا اس وقت کا آنسوئے صہبا ہے
اس چشمِ حسِیں کو کیا کہیے جب پی نہ سکی چھلکا ہی گئی
خودبِیں تھا مزاجِ حسن مگر دامانِ محبت چھُو ہی گیا
اندازِ تغافل کچھ بھی سہی کچھ ان کی نظر فرما ہی گئی
ہر شعلہ گرِ عہدِ ظلمت، انجام سے اپنے ڈرتا ہے
جب ذکرِ سحر محفل میں چھِڑا، کچھ شمع کی لَو تھرّا ہی گئی
اس دور میں کتنے شیخِ حرم مے خانہ کا رستہ پوچھ گئے
ساقی کی نظر بے گانہ سہی، کچھ کارِ جہاں سمجھا ہی گئی
اک آہ جو شعلہ بار ہوئی، عالم میں شرارے پھیل گئے
اک موج جو مضطر ہو کے اٹھی دریا کا لہو گرما ہی گئی
تہذیب کے رعنا پیکر سے یہ بارِ امانت اٹھ نہ سکا
ناظورہ عہدِ حاضر کی نازک تھی کمر بل کھا ہی گئی
زہرابِ زمانہ پی پی کے جو اہلِ جنوں تھے راہ لگے
شاعر کو نشورؔ اک زلفِ دوتا غم دے نہ سکی الجھا ہی گئی

نشور واحدی

No comments:

Post a Comment