تشکیک کے جہاں سے گُزر جانا چاہیے
اس پر یقیں نہ ہو تو مُکر جانا چاہیے
سوچیں تھکی ہوئی ہیں کڑی دھوپ سر پہ ہے
اب کیسے طے کریں کہ کِدھر جانا چاہیے
میری نظر میں ہے یہی معیارِ نقدِ فن
ہر شے کو چپ لگی ہے بھرے شہر میں، مجھے
خاموشیوں کے شور سے ڈر جانا چاہیے
وہ جس سے مِل کے پھر نہ مِلے آپنے آپ سے
اس بُت سے مِلنے بارِ دِگر جانا چاہیے
میں آندھیوں کی زَد میں ہوں میرے وجود کو
ریگِ رواں کی طرح بکھر جانا چاہیے
سلطان رشکؔ فن ہو جہاں مصلحت کا نام
اس دورِ ناسپاس میں مر جانا چاہیے
سلطان رشک
No comments:
Post a Comment