Tuesday 29 September 2015

سزائیں جتنی ملی ہیں اس ایک بھول کی ہیں

سزائیں جتنی ملی ہیں اس ایک بھول کی ہیں
کہ ہم نے زندگی شرطیں تِری قبول کی ہیں
سوال ہم نے کیا جب کبھی محبت کا
تو دوستوں نے بڑی قیمتیں وصول کی ہیں
میں اپنے چہرے کی رنگت کو کب کا بھول چکا
بڑی نوازشیں مجھ پر سفر کی دھول کی ہیں
مجھے بھی جینے کے سب داؤ پیچ آتے ہیں
مِرے ضمیر میں پھانسیں مگر اصول کی ہیں
سخن کے پھول کھِلانے کو ہم کہاں جائیں
یہاں تو جتنی زمینیں ہیں سب نزول کی ہیں
ہوا کہ شہ پہ الجھ تو گئے تھے کانٹوں سے
قبائیں چاک چمن میں ہر ایک پھول کی ہیں
جو یادیں شادؔ کبھی باعثِ مسرت تھیں
طبیعتیں بھی انہیں نے بہت ملول کی ہیں

خوشبیر سنگھ شاد

No comments:

Post a Comment