رہزن ہیں ہر قدم پہ، مسافر سنبھل کے چل
ہموار ہیں جو آج وہ راہیں بدل کے چل
دنیا کی اس بساط کے مہروں پہ غور کر
چالوں کا تُو بھی اپنے طریقہ بدل کے چل
کتنے ہیں باوفا تِرے احباب دیکھ لے
تیرا وجود بحرِ مسرت میں کھو نہ جائے
موجِ الم سے کہہ دے کوئی رخ بدل کے چل
لُٹتے ہیں لوگ روز ہی رشتوں کے نام پر
اس واسطے سماج میں رشتہ بدل کے چل
یہ شہرِ آرزو تو بڑا پُر فریب ہے
خالدؔ تُو اس مقام سے رستہ بدل کے چل
امان اللہ خالد
No comments:
Post a Comment