منظر سا تھا کوئی کہ نظر اس میں گم ہوئی
سمجھو کہ خواب تھا کہ سحر اس میں گم ہوئی
سودائے رنگ وہ تھا کہ اترا خود اپنا رنگ
پھر یہ کہ ساری جنسِ ہنر اس میں گم ہوئی
وہ میرا اک گمان کہ منزل تھا جس کا نام
دیوار کے سوا نہ رہا کچھ دلوں کے بیچ
ہر صورتِ کشائشِ در اس میں گم ہوئی
لائے تھے رات اس کی خبر قاصدانِ دل
دل میں وہ شور اٹھا کہ خبر اس میں گم ہوئی
اک فیصلے کا سانس تھا، اک عمر کا سفر
لیکن تمام راہ گزر اس میں گم ہوئی
بس جونؔ کیا کہوں کہ مِری ذاتِ نفع جُو
جس کام میں یہاں تھا ضرر اس میں گم ہوئی
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment