Monday, 28 September 2015

منظر سا تھا کوئی کہ نظر اس میں گم ہوئی

منظر سا تھا کوئی کہ نظر اس میں گم ہوئی
سمجھو کہ خواب تھا کہ سحر اس میں گم ہوئی
سودائے رنگ وہ تھا کہ اترا خود اپنا رنگ
پھر یہ کہ ساری جنسِ ہنر اس میں گم ہوئی
وہ میرا اک گمان کہ منزل تھا جس کا نام
ساری متاعِ شوقِ سفر اس میں گم ہوئی 
دیوار کے سوا نہ رہا کچھ دلوں کے بیچ
ہر صورتِ کشائشِ در اس میں گم ہوئی
لائے تھے رات اس کی خبر قاصدانِ دل
دل میں وہ شور اٹھا کہ خبر اس میں گم ہوئی
اک فیصلے کا سانس تھا، اک عمر کا سفر
لیکن تمام راہ گزر اس میں گم ہوئی
بس جونؔ کیا کہوں کہ مِری ذاتِ نفع جُو
جس کام میں یہاں تھا ضرر اس میں گم ہوئی

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment