Wednesday, 30 September 2015

سنگ در دیکھ کے سر یاد آیا

سنگِ در دیکھ کے سر یاد آیا
کوئی دیوانہ مگر یاد آیا
پھر وہ انداز نظر یاد آیا
چاک دل تا بہ جگر یاد آیا
ذوقِ اربابِ نظر یاد آیا
سجدہ بے منتِ سر یاد آیا
پر تبسم پہ یہ کھاتا ہوں فریب
کہ انہیں دیدۂ تر یاد آیا
ہائے وہ معرکۂ ناوک ناز
دل بچھایا تو جگر یاد آیا
آئینہ اب نہیں دیکھا جاتا
میں بعنوانِ دگر یاد آیا
درد کو ہے پھر مِرے دل کی تلاش
خانہ برباد کو گھر یاد آیا
اس کو بھولے تو ہوئے ہو فانیؔ
کیا کرو گے، وہ اگر یاد آیا

فانی بدایونی

No comments:

Post a Comment