جنوں کریں ہوسِ ننگ و نام کے نہ رہیں
مگر نہ یوں ہو کہ ہم اپنے کام کے نہ رہیں
زیاں ہے اس کی رفاقت کہ اس کے دوش بدوش
چلیں تو منظرِ حسنِ خرام کے نہ رہیں
کہاں ہے وصل سے بڑھ کر کوئی عطا لیکن
نصیب ہو کوئی دَم وہ معاشِ حال کہ ہم
حسابِ سلسلۂ صبح و شام کے نہ رہیں
یہ بات بھی ہے کہ لمحوں کے لوگ جائیں کہاں
اگر فریبِ بقا سے دوام کے نہ رہیں
خدا نہیں ہے تو کیا حق کو چھوڑ دیں اے شیخ
غضب خدا کا ہم اپنے اِمام کے نہ رہیں
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment