Tuesday 29 September 2015

​رخصت رقص بھی ہے پاؤں میں زنجیر بھی ہے

​رخصتِ رقص بھی ہے پاؤں میں زنجیر بھی ہے
سرِ منزل مگر اِک بولتی تصویر بھی ہے
میرے شانوں پر فرشتوں کا بھی ہے بارِ گراں
اور میرے سامنے اِک ملبے کی تعمیر بھی ہے
زائچہ اپنا جو دیکھا تو سر یاد آیا
جیسے ان ہاتھوں پہ کندہ کوئی تقدیر بھی ہے
خواہشیں خون میں اتری ہیں صحیفوں کی طرح
ان کتابوں میں تِرے ہاتھ کی تحریر بھی ہے
جس سے مِلنا تھا مقدر وہ دوبارہ نہ مِلا
اور امکاں نہ تھا جس کا وہ عناں گیر بھی ہے
سرِ دیوار نوِشتے بھی کئی دیکھتا ہوں
پسِ دیوار مگر حسرتِ تعمیر بھی ہے
میں یہ سمجھتا تھا سلگتا ہوں فقط میں ہی یہاں
اب جو دیکھا تو یہ احساس ہمہ گیر بھی ہے
یوں نہ دیکھو کہ زمانہ متوجہ ہو جائے
کہ اس اندازِ نظر میں مِری تشہیر بھی ہے
میں نے جو خواب ابھی دیکھا نہیں ہے اخترؔ
میرا ہر خواب اسی خواب کی تعبیر بھی ہے

اختر ہوشیار پوری

No comments:

Post a Comment