Monday 28 September 2015

جو شب سیاہ سے ڈر گئے کسی شام ہی میں بھٹک گئے

جو شبِ سیاہ سے ڈر گئے کسی شام ہی میں بھٹک گئے
وہی تاجدارِ سحر بنے جو سیاہیوں میں چمک گئے
نہ بنایا منہ کسی جام پر، نہ لگایا دل کسی جام سے
جو لبوں تک آئے وہ پی لیے جو چھلک گئے وہ چھلک گئے
تجھے کچھ خبر بھی ہے محتسب! اسی بزم میں تِرے سامنے
لڑِیں دور ہی سے نگاہیں وہ، کبھی یوں بھی جام کھنک گئے
کہوں کیا میں زیست کی داستاں اسے یوں سمجھ مِرے مہرباں
کبھی حرفِ بزم جو سن لیا تو نظر کے جام چھلک گئے
مِرے ذہن و دل کی بصیرتیں، غمِ زندگی کی حقیقتیں
مِرے لب پہ گیت نہیں ہیں وہ کہ جو پائلوں میں چھنک گئے
سنیں بامِ ہوش پہ جا کے کیوں تِری ملاؔ آیتِ بے مزا
ابھی کوئے عشق میں رات کو وہ غزل سنی کہ پھڑک گئے

اسی غزل کے دو اور اشعار

مِرے رہنمائے سخن سرا کبھی منبروں سے اتر ذرا
کوئی گام راہِ عمل میں بھی، تِری گفتگو سے تو تھک گئے
رہِ علم شک کی ہیں سیڑھیاں یہی ذہنِ زندہ کا ہے نشاں
جسے اختلاف میں ہو گماں، وہ ہمیں نہ ہوں جو بہک گئے

آنند نرائن ملا

No comments:

Post a Comment