Tuesday 29 September 2015

منزلوں کے فاصلے در و دیوار میں رہ گئے

منزلوں کے فاصلے در و دیوار میں رہ گئے
کیا سفر تھا میرے سارے خواب گھر میں رہ گئے
اب کوئی تصویر بھی اپنی جگہ قائم نہیں
اب ہوا کے رنگ ہی میری نظر میں رہ گئے
جتنے منظر تھے میرے ہمراہ گھر تک آئے
اور پس منظر سواد رہگزر میں رہ گئے
اپنے قدموں کے نشاں بھی بند کمروں میں رہے
طاقچوں پر دِیئے خالی نگر میں رہ گئے
کر گئی نام سے غافل ہمیں اپنی شناخت
صرف آوازوں کے سائے ہی خبر میں رہ گئے
ناخداؤں نے پلٹ کر جانے کیوں دیکھا نہیں
کشتیوں کے تو کئی تختے بھنور میں رہ گئے
کیسی کیسی آہٹیں الفاظ کا پیکر بنیں
کیسے کیسے عکس میری چشمِ تر میں رہ گئے
ہاتھ کی ساری لکِیریں پاؤں کے تلوؤں میں تھیں
اور میرے ہمسفر گردِ سفر میں رہ گئے
کیا ہجومِ رنگ اخترؔ کیا فروغِ بُوئے گُل
موسموں کے ذائقے بوڑھے شجر میں رہ گئے 

اختر ہوشیار پوری

No comments:

Post a Comment