Friday, 25 September 2015

جو غم حبیب سے دور تھے وہ خود اپنی آگ میں جل گئے

جو غمِ حبیب سے دور تھے وہ خود اپنی آگ میں جل گئے
جو غمِ حبیب کو پا گئے وہ غموں سے ہنس کے نکل گئے
جو تھکے تھکے سے تھے حوصلے وہ شباب بن کے مچل گئے
وہ نظر نظر سے گلے ملی تو بجھے چراغ بھی جل گئے
یہ شکستِ دید کی کروٹیں بھی بڑی لطیف و جمیل تھیں
میں نظر جھکا کے تڑپ گیا وہ نظر بچا کے نکل گئے
نہ خزاں میں ہے کوئی تیرگی نہ بہار میں ہے کوئی روشنی
یہ نظر نظر کے چراغ ہیں کہیں بجھ گئے کہیں جل گئے
جو کھلے ہوئے ہیں روش روش وہ ہزار حسنِ چمن سہی
مگر ان گلوں کا جواب کیا جو قدم قدم پہ کچل گئے
جو سنبھل سنبھل کے بہک گئے وہ فریب خوردۂ راہ تھے
وہ مقامِ عشق کو پا گئے جو بہک بہک کے سنبھل گئے
یہ حدیثِ نغمہ و ساز کیا، یہ فروغِ بادہ و جام کیا
جو تِرے شباب سے بچ رہے وہ شراب و شعر میں ڈھل گئے
نہ ہے شاعرؔ اب غمِ نو بہ نو نہ وہ داغِ دل نہ وہ تازگی
جنہیں اعتمادِ بہار تھا، وہی پھول رنگ بدل گئے

شاعر لکھنوی

No comments:

Post a Comment