اتنا تو یاد ہے کہ تہِ آب لے گیا
مجھ کو نہ جانے پھر کہاں گرداب لے گیا
پہلے تو میری آنکھ سے اس نے چرائی نیند
پھر حوصلے بڑھے تو مِرے خواب لے گیا
خود تو چلا گیا وہ سحر کی تلاش میں
آنکھوں سے میری منظر شب تاب لے گیا
ماضی کی وہ کتاب ادھوری ہی رہ گئی
وہ میری زندگی کے کئی باب لے گیا
اب ساحلوں پہ شاد وہ منظر نہیں رہا
سب کچھ بہا کے وقت کا سیلاب لے گیا
مجھ کو نہ جانے پھر کہاں گرداب لے گیا
پہلے تو میری آنکھ سے اس نے چرائی نیند
پھر حوصلے بڑھے تو مِرے خواب لے گیا
خود تو چلا گیا وہ سحر کی تلاش میں
آنکھوں سے میری منظر شب تاب لے گیا
ماضی کی وہ کتاب ادھوری ہی رہ گئی
وہ میری زندگی کے کئی باب لے گیا
اب ساحلوں پہ شاد وہ منظر نہیں رہا
سب کچھ بہا کے وقت کا سیلاب لے گیا
خوشبیر سنگھ شاد
No comments:
Post a Comment