Tuesday 29 September 2015

اتنا تو یاد ہے کہ تہ آب لے گیا

اتنا تو یاد ہے کہ تہِ آب لے گیا
مجھ کو نہ جانے پھر کہاں گرداب لے گیا
پہلے تو میری آنکھ سے اس نے چرائی نیند
پھر حوصلے بڑھے تو مِرے خواب لے گیا
خود تو چلا گیا وہ سحر کی تلاش میں
آنکھوں سے میری منظر شب تاب لے گیا
ماضی کی وہ کتاب ادھوری ہی رہ گئی
وہ میری زندگی کے کئی باب لے گیا
اب ساحلوں پہ شاد وہ منظر نہیں رہا
سب کچھ بہا کے وقت کا سیلاب لے گیا

خوشبیر سنگھ شاد

No comments:

Post a Comment