Friday, 25 September 2015

دوستوں کو ذرا اپنا غم میری جاں تم دکھاتے نہیں

دوستوں کو ذرا اپنا غم میری جاں تم دکھاتے نہیں
گیت گاتے نہیں، رقص کرتے نہیں مسکراتے نہیں
صحنِ جاں کو بناتے ہو تم آج شب، اپنی محفلِ طرب
تو کبھی یہ بھی سوچا ستاروں سے آنکھیں چُراتے نہیں
اپنی محفل میں سب کو بُلاتے بھی ہو، پھر اُٹھاتے بھی ہو
یہ بتاؤ، ہمیں کیوں بُلاتے نہیں، پھر اُٹھاتے نہیں
اپنی پلکوں سے گر جائے تو کیا کہیں، اور کس سے کہیں
یہ گُہر اپنی پلکوں سے ہم اس طرح تو گِراتے نہیں
دیکھو پلکوں پہ کیسے گُہر آئے ہیں، ہمسفر آئے ہیں
ہمسفر اپنا غم تو کبھی ہمسفر سے چھُپاتے نہیں
وہ سمجھتے ہیں دل میری معراج ہے، میرا سرتاج ہے
وہ سمجھتے نہیں، دل کو اتنا بھی سر پر چڑھاتے نہیں

جمیل قمر

No comments:

Post a Comment