Saturday 26 September 2015

خیال و خواب کو پابند خوئے یار رکھا

خیال و خواب کو پابندِ خوئے یار رکھا
سو دل کو دل کی جگہ ہم نے بار بار رکھا
اسے بھی میں نے بہت خود پہ اختیار دِیے
اور اس طرح کہ بہت خود پہ اختیار رکھا
دکھوں کا کیا ہے مجھے فکر ہے کہ اس نے کیوں
بچھڑتے وقت بھی لہجے کو خوشگوار رکھا
ہوا چراغ بجھانے لگی تو ہم نے بھی
دِیے کی لو کی جگہ تیرا انتظار رکھا
چھپا کے رکھ لیے اندر کے اپنے دکھ محسنؔ
اور اپنی ظاہری حالت کو بھی سنوار رکھا

محسن اسرار

No comments:

Post a Comment