فضا میں سرد ہوا کا خرام پہلے کا ہے
جدائی آج ہوئی، اہتمام پہلے کا ہے
تمہارے گھر کوئی آیا، یہ بات بعد کی ہے
شجر پہ لکھا ہوا میرا نام پہلے کا ہے
یہ خط بہار کا موسم گزار آیا ہے
مِرے پیالے سے اک چاند گر کے ٹوٹ گیا
اور اس سے چہرہ تِرا، ایک شام پہلے کا ہے
تمہارا فیصلہ میرے عمل کے بعد آتا
یہ جبر و قدر کا مہمل نظام پہلے کا ہے
کسی سے عہد نبھایا بھی، توڑ بھی ڈالا
وہ تیز مرحلہ و تیز گام پہلے کا ہے
غزل سنائیں کہ اس کے لئے قصیدہ کہیں
اسے یہ ضد کہ یہ سارا کلام پہلے کا ہے
شاہنواز زیدی
No comments:
Post a Comment