Tuesday 29 September 2015

کیا ضروری ہے کوئی بے سبب آزار بھی ہو

کیا ضروری ہے کوئی بے سبب آزار بھی ہو
سنگ اپنے لیے شیشہ کا طلبگار بھی ہو
دلبری، حسن کا شیوہ ہے مگر کیا کیجئے
اب یہ لازم تو نہیں حسن وفادار بھی ہو
زخمِ جاں وقت کے کانٹوں سے بھی سِل سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ ریشم کا کوئی تار بھی ہو
فاصلہ رکھیے دلوں میں، مگر اتنا بھی نہیں
درمیاں جیسے کوئی آہنی دیوار بھی ہو
دو کناروں کی طرح ساتھ ہی چلتے رہیے
اب ضروری تو نہیں کوئی سروکار بھی ہو
کوئی اس درد کے رشتے کو نبھائے کیونکر
چارہ سازی جو کرے وہ کوئی غمخوار بھی ہو
شیشۂ جان کو بچانے کی یہ کوشش ہے تنویرؔ
شاید اس شہرِ ستم کے لیے بے کار بھی ہو 

تنویر احمد علوی

No comments:

Post a Comment