Friday 25 September 2015

سرد ہے عشق کا بازار اب کے

سرد ہے عشق کا بازار اب کے
ہیں تہی دست خریدار اب کے
کٹ کے شاخوں سے گرے برگ و ثمر
فصلِ گُل ہو گئی تلوار اب کے
ہر گھڑی ایک ہی صورت کا جنوں
ہم نہیں دل کے طرفدار اب کے
سر ہتھیلی پہ لیے ہیں کچھ لوگ
زد پہ ہے کوچۂ دلدار اب کے
پھول کو روند کے چلنے والے
سیج کانٹوں کی ہے تیار اب کے
جس طرح شاخ پہ پھول آتے ہیں
لوگ یوں آئے سرِ دار اب کے
بارشیں آئیں تو ہم گھر میں نہ تھے
روئے پہروں در و دیوار اب کے
شمع رستوں میں جلا دو شاعرؔ
آندھیوں کے سے ہیں آثار اب کے

شاعر لکھنوی

No comments:

Post a Comment