Tuesday, 29 September 2015

یہ کیسے دور کا سقراط بن کے جینا تھا

یہ کیسے دور کا سقراط بن کے جینا تھا
بجائے زہر، مجھے گالیوں کو پینا تھا
وہاں تھی تندئ صہبا، یہاں شکستِ وجود
یہ سنگِ صبح ہے، وہ شب کا آبگینہ تھا
چھپی تھی موج کی بانہوں میں روحِ تشنہ لبی
چمکتی ریت میں ڈوبا ہوا سفینہ تھا
اکھاڑ لے گئے سایوں سے کھیلنے والے
ہزاروں سال کا گاڑا ہوا دفینہ تھا
لبِ سکوت سے بوسہ چرا لیا تھا جہاں
نگارِ خانۂ آواز ہی کا زینہ تھا

مظہر امام

No comments:

Post a Comment