Saturday, 26 September 2015

عشق صادق ہی تو معیار طلب کرتا ہے

عشقِ صادق ہی تو معیار طلب کرتا ہے
یہ سکوں بانٹ کے آزار طلب کرتا ہے
جس کی گرمی سے مہک اٹھتا ہے پندارِ وفا
شعلۂ عشق، وہ دلدار طلب کرتا ہے
اک جہاں، وہ بھی مکمل سا، مِلے ہے کس کو
قلبِ معصوم تو بے کار طلب کرتا ہے
جس کی خُوشبو ہو سفیرانِ ادب میں ہر سُو
اک غزل ایسی بھی فنکار طلب کرتا ہے
رَت جگے کر کے وہ افکار کی وادی کے سپرد
صبحِ خُوش رنگ کو ہر بار طلب کرتا ہے
شہرِ خُوش رنگ، تسلی، نہ وضاحت نہ سلوک
دل وہ بچہ ہے جو سنسار طلب کرتا ہے
کیا معمہ ہے، عجب شوقِ جنوں ہے اس کو
رشتۂ دل میں بھی دیوار طلب کرتا ہے
یوں تو ہے وجہِ سکوں وحشتِ جاں، پھر کیونکر
یہ دلِ سادہ بھی بازار طلب کرتا ہے
صرف اقرارِ محبت نہیں اس کو کافی
وہ عمل سے بھی تو اظہار طلب کرتا ہے
بُوئے سلطانی تو ہے، ہو نہ ریاست، نہ سہی
وہ اٹھے جب بھی تو دستار طلب کرتا ہے
ہر یقیں آج گماں اور گماں جیسے یقیں
اب جنوں، دشت سے گھر بار طلب کرتا ہے
دل کہ عادی ہُوا اس درد کا اے راحتِ جاں
یوں نیا دُکھ تِرا بیمار طلب کرتا ہے

محسن اسرار

No comments:

Post a Comment