Wednesday 23 September 2015

بکھرے ہوئے اس شہر میں چہرے بھی بہت تھے

بکھرے ہوئے اس شہر میں چہرے بھی بہت تھے
اظہار کے انداز پہ پہرے بھی بہت تھے
ہم بے سر و سامان تھے جاتے تو کدھر کو
دریا جو تھے اطراف میں گہرے بھی بہت تھے 
ہم سے بھی رہ و رسم نبھاتا رہا، لیکن
اس چہرۂ شب تاب کے چہرے بھی بہت تھے
اک عدل ہی نایاب تھا بس شہر میں تیرے
مُنصف بھی تھے، مُجرم بھی کٹہرے بھی بہت تھے
کچھ ہم بھی تھے ناواقفِ آدابِ تمدن
کچھ خواب زمانے کے سنہرے بھی بہت تھے

سلطان رشک

No comments:

Post a Comment