یار کے شوقِ ملاقات میں آ بیٹھے ہیں
ہم خِرد وَر بھی خرابات میں آ بیٹھے ہیں
ہم سے دیکھی نہ گئی اچھے گھروں کی ذِلّت
قیصر و جَم کے محلات میں آ بیٹھے ہیں
کتنے گُل پوش غزالوں کے رمیدہ جھُرمٹ
میں تَری بزم میں آؤں گا، مگر آج نہیں
یہ تو بھونرے ہیں جو برسات میں آ بیٹھے ہیں
بیٹھنا اور کسی کاکل کی قریبی میں عدمؔ
سایۂ چشمۂ ظُلمات میں آ بیٹھے ہیں
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment