Tuesday 29 September 2015

خدا جانے کہاں ہے اصغر دیوانہ برسوں سے

خدا جانے کہاں ہے اصغر دیوانہ برسوں سے
کہ اس کو ڈھونڈتے ہیں کعبہ و بت خانہ برسوں سے
تڑپنا ہے نہ جلنا ہے نہ جل کر خاک ہونا ہے
یہ کیوں سوئی ہوئی ہے فطرتِ پروانہ برسوں سے
کوئی ایسا نہیں یارب! کہ جو اس درد کو سمجھے
نہیں معلوم کیوں خاموش ہے دیوانہ برسوں سے
کبھی سوزِ تجلی سے اسے نسبت نہ تھی گویا
پڑی ہے اس طرح خاکسترِ پروانہ برسوں سے
ترے قربان ساقی! اب وہ موجِ زندگی کیسی
نہیں دیکھی ادائے لغزشِ مستانہ برسوں سے
مری رِندی عجب رِندی مری مستی عجب مستی
کہ سب ٹوٹے پڑے ہیں شیشہ و پیمانہ برسوں سے
حسینوں پر نہ رنگ آیا نہ پھولوں میں بہار آئی
نہیں آیا جو لب پر نغمہ مستانہ برسوں سے
کھلی آںکھوں سے ہوں حسنِ حقیقت دیکھنے والا
ہوئی لیکن نہ توفیقِ درِ بت خانہ برسوں سے
لباسِ زہد ہو پھر کاش نذرِ آتشِ صہبا
کہاں کھوئی ہوئی ہے جرأتِ رِندانہ برسوں سے
جسے لینا ہو آ کر اس سے اب درسِ جنوں لے لے
سنا ہے ہوش میں ہے اصغرِؔ دیوانہ برسوں سے

اصغر گونڈوی

No comments:

Post a Comment