Tuesday, 22 September 2015

نہ پوچھ اے ہم نشیں جان حزیں مشکل میں ہوتی ہے

نہ پوچھ اے ہمنشیں! جانِ حزیں مشکل میں ہوتی ہے
بلا ہوتی ہے کوئی یا محبت دل میں ہوتی ہے
تڑپ رکھا گیا ہے نام شاید ربطِ باہم کا
نہ یہ خنجر میں ہوتی ہے، نہ یہ بسمل میں ہوتی ہے
حسینوں سے کہاں تک بے وفائی کا گِلہ کیجے
وفا ناآشنائی ان کے آب و گِل میں ہوتی ہے
خدا کی شان جس محفل میں کل تک شانِ محفل تھے
بڑی بے حُرمتی اب جا کے اس محفل میں ہوتی ہے
اسے کہتے ہیں وحشتِ قیس، پھِرتا ہے بیاباں میں
مگر وہ لیلٰئ محمل نشیں، محمل میں ہوتی ہے
غرورِ حُسن دیکھو، دیکھ کر آئینہ کہتے ہیں
وہ ایسی کیا صِفت ہے جو مہِ کامل میں ہوتی ہے
اسی کو اصطلاحِ عام میں الفت بھی کہتے ہیں
یہ میٹھی سے خلِش جو خارؔ پیہم دل میں ہوتی ہے

خار دہلوی 

No comments:

Post a Comment