Tuesday 29 September 2015

خبر ملی ہے غم گردش جہاں سے مجھے

خبر ملی ہے غمِ گردشِ جہاں سے مجھے
کہ دیکھتا ہے کوئی چشمِ مہرباں سے مجھے
تِرا خیال تھا، تیری نظر کے ساتھ گیا
زمانہ ڈھونڈ کے لائے گا اب کہاں سے مجھے
کہیں یہ تم تو نہیں، میری آرزو تو نہیں
بلا رہا ہے کوئی بامِ کہکشاں سے مجھے
شجر کہاں تھے صلیبیں گڑِی تھیں گام بہ گام
رہِ طلب میں گزرنا پڑا کہاں سے مجھے
جہاں نِگاہ کو یارائے دَم زدَن نہ ہُوا
پیام آتے نہیں کیا اس آستاں سے مجھے
میں اجنبی تھا، یہاں کون آشنا تھا مِرا
زمانہ جان گیا تیری داستاں سے مجھے
متاعِ زِیست تھے جو خواب، اخترؔ آج بھی ہیں
کبھی گِلہ نہ ہُوا عمرِ رائیگاں سے مجھے 

اختر ہوشیار پوری

No comments:

Post a Comment