Wednesday 30 September 2015

یہ کس قیامت کی بیکسی ہے زمیں ہی اپنا نہ یار میرا

یہ کس قیامت کی بے کسی ہے زمیں ہی اپنا نہ یار میرا
نہ خاطر بے قرار میری، نہ دیدۂ اشکبار میرا
نشان عبرت عیاں نہیں ہے نہیں کہ باقی نشاں نہیں ہے
مزار میرا کہاں نہیں ہے، کہیں نہیں ہے مزار میرا
وصال تیرا خیال تیرا جو ہو تو کیونکر نہ ہو تو کیونکر
نہ تجھ پہ کچھ اختیار دل کا نہ دل پہ کچھ اختیار میرا
نگاہِ دلدوز کی دہائی، جمال جاں سوز کی دہائی
رہِ محبت میں غم نے لوٹا شکیب صبر و قرار میرا
میں درد فرقت سے جاں بلب ہوں تمہیں یقینِ وفا نہیں ہے
مجھے نہیں اعتبار اپنا، تمہیں نہیں اعتبار میرا
قدم نکال اب تو گھر سے باہر جو دم بھی سینے سے سہل نکلے
دکھا نہ اب انتظار اپنا، لحد کو ہے انتظار میرا
سنا ہے اٹھا ہے اک بگولہ جلو میں کچھ آندھیوں کو لے کر
طوافِ دشتِ جنوں کو شاید گیا ہے فانیؔ غبار میرا

فانی بدایونی

No comments:

Post a Comment