قصور عشق میں ظاہر ہے سب ہمارا تھا
تری نگاہ نے دل کو مگر پکارا تھا
وہ بھی کیا تھے کہ ہر بات میں اشارا تھا
دلوں کا راز نگاہوں سے آشکارا تھا
ہوائے شوق نے رنگِ حیا نکھارا تھا
فریب کھا کے تری شوخیوں سے کیا پوچھیں
حیات و مرگ میں کس کی طرف اشارا تھا
سجود حسن کی تمکیں پہ بار تھا، ورنہ
جبینِ شوق کو یہ ننگ بھی گوارا تھا
چمن میں آگ نہ لگتی تو اور کیا ہوتا
کہ پھول پھول کے دامن میں ایک شرارا تھا
تباہیوں کا تو دل کی گِلہ نہیں، لیکن
کسی غریب کا یہ آخری سہارا تھا
بہت لطیف تھے نظارے حسنِ برہم کے
مگر نگاہ اٹھانے کا کس کو یارا تھا
یہ کہیے ذوقِ جنوں کام آ گیا تاباںؔ
نہیں تو رسم و رہِ آگہی نے مارا تھا
غلام ربانی تاباں
No comments:
Post a Comment