Monday 28 September 2015

زندگی بھر ایک کار بے سبب کرتے رہے

زندگی بھر ایک کارِ بے سبب کرتے رہے
تیری حسرت، تیرا غم، تیری طلب کرتے رہے
جانتے تھے وہ نہ آیا ہے، نہ آئے گا کبھی
جستجو لیکن اسی کی روز و شب کرتے رہے
ہجر کے موسم کو یادوں سے سجائے دور تک
زندگی کا ہم سفر تیرے سبب کرتے رہے
رات مجھ سے اتفاقاً وہ جو ملنے آ گیا
شہر میں چرچا رہا اور بات کرتے رہے
تیری چاہت میں نہ تھا اس کے سوا کچھ مشغلہ
شب سے دن کرتے رہے اور دن سے شب کرتے رہے
اس کی آنکھوں سے بھی جھلکے پیار صابرؔ کے لیے
عمر بھر بس یہ دعا ہم زیرِ لب کرتے رہے

صابر دت

No comments:

Post a Comment