ہم ایک دن نکل آئے تھے خواب سے باہر
سو ہم نے رنج اٹھائے حساب سے باہر
اسی امید پہ گزری ہے زندگی ساری
کبھی تو ہم سے ملو گے حجاب سے باہر
تمہاری یاد نکلتی نہیں مِرے دل سے
نشہ چھلکتا نہیں ہے شراب سے باہر
کسی کے دل میں اترنا ہے کار لاحاصل
کہ ساری دهوپ تو ہے آفتاب سے باہر
شناس کھول دیے جس نے ہم پہ سب اسرار
وہ ایک لفظ ملا ہے کتاب سے باہر
سو ہم نے رنج اٹھائے حساب سے باہر
اسی امید پہ گزری ہے زندگی ساری
کبھی تو ہم سے ملو گے حجاب سے باہر
تمہاری یاد نکلتی نہیں مِرے دل سے
نشہ چھلکتا نہیں ہے شراب سے باہر
کسی کے دل میں اترنا ہے کار لاحاصل
کہ ساری دهوپ تو ہے آفتاب سے باہر
شناس کھول دیے جس نے ہم پہ سب اسرار
وہ ایک لفظ ملا ہے کتاب سے باہر
فہیم شناس کاظمی
No comments:
Post a Comment