Wednesday 23 September 2015

ہم ایک دن نکل آئے تھے خواب سے باہر

ہم ایک دن نکل آئے تھے خواب سے باہر
سو ہم نے رنج اٹھائے حساب سے باہر
اسی امید پہ گزری ہے زندگی ساری
کبھی تو ہم سے ملو گے حجاب سے باہر
تمہاری یاد نکلتی نہیں مِرے دل سے
نشہ چھلکتا نہیں ہے شراب سے باہر
کسی کے دل میں اترنا ہے کار لاحاصل
کہ ساری دهوپ تو ہے آفتاب سے باہر
شناس کھول دیے جس نے ہم پہ سب اسرار
وہ ایک لفظ ملا ہے کتاب سے باہر

فہیم شناس کاظمی

No comments:

Post a Comment