Monday 28 September 2015

شہر جسے سمجھے تھے کل تک، جنگل ہے انسانوں کا

شہر جسے سمجھے تھے کل تک، جنگل ہے انسانوں کا
گلی گلی میں اب ہوتا ہے ناچ یہاں شیطانوں کا
ہم تو دل کے کعبے میں کرتے ہیں نمازِ عشق ادا
ہم سے نہ پوچھو حال میاں! دنیا کے عبادت خانوں کا
وہ تو اپنے دل کی آگ میں جلتے جلتے راکھ ہوئی
شمع کو اتنا ہوش کہاں، کیا حال ہوا پروانوں کا
پریاں اتریں چھم چھم کرتی سپنوں کی انگنائی میں
دل میں اک میلہ سا لگا ہے پیار بھرے ارمانوں کا
ساقی تیرے میخواروں کی پیاس نہ بجھنے پائے گی
جب تک تارے گردش میں ہیں دور چلے پیمانوں کا
گلشن گلشن صحرا صحرا کانٹے چنتے پھرتے ہیں
کیا ہو گا انجام نہ پوچھو، ہم جیسے دیوانوں کا
تم کیا میری نوائے شوق کو زنجیریں پہناؤ گے
میں ہوں سروشؔ مری سانسوں میں نغمہ ہے طوفانوں کا

رفعت سروش

No comments:

Post a Comment