Sunday 27 September 2015

چمن چمن خال و خط کی رنگت جھلس گئی ہے

چمن چمن خال و خط کی رنگت جھلس گئی ہے
گھٹا امنڈتے ہوئے سمندروں پہ برس گئی ہے
حصارِ زنداں میں آ گیا ہے ٹھٹھرتا موسم
مِرے بدن کو کچھ اور زنجیر کس گئی ہے
دھوئیں کی چادر میں چھپ گیا ہے ہر ایک منظر
سیاہئ شب مکان میں میرے بس گئی ہے
تمام راتیں میں اپنے بستر پہ لَوٹتا ہوں
کسی کی آواز میری نیندوں کو ڈس گئی ہے
نجانے کس خوف سے میں خود میں سمٹ گیا ہوں
نگاہ میری مِرے نمو کو ترس گئی ہے
سکوت پھر چھا گیا ہے جنگل کی وسعتوں میں
عقب میں ہی کارواں کے بانگِ جرس گئی ہے

شاہد کلیم

No comments:

Post a Comment