خامشی اتنی رہی ہے مجھ میں
گفتگو ڈوب گئی ہے مجھ میں
ایک بس تم ہی نئے آئے ہو
اور سب کچھ تو وہی ہے مجھ میں
دُور تک دنیا نظر آنے لگی
ایسی دیوار گری ہے مجھ میں
میں مہکتا ہوں تِری خوشبو سے
خود کو تُو بھول گئی ہے مجھ میں
کتنا شفّاف تھا منظر میرا
کس قدر دُھول اُڑی ہے مجھ میں
زندگی رقص کبھی کرتی تھی
اب تو چُپ چاپ پڑی ہے مجھ میں
گفتگو ڈوب گئی ہے مجھ میں
ایک بس تم ہی نئے آئے ہو
اور سب کچھ تو وہی ہے مجھ میں
دُور تک دنیا نظر آنے لگی
ایسی دیوار گری ہے مجھ میں
میں مہکتا ہوں تِری خوشبو سے
خود کو تُو بھول گئی ہے مجھ میں
کتنا شفّاف تھا منظر میرا
کس قدر دُھول اُڑی ہے مجھ میں
زندگی رقص کبھی کرتی تھی
اب تو چُپ چاپ پڑی ہے مجھ میں
فہیم شناس کاظمی
No comments:
Post a Comment