Tuesday, 29 September 2015

بھلا کب دیکھ سکتا ہوں کہ غم ناکام ہو جائے

بھلا کب دیکھ سکتا ہوں کہ غم ناکام ہو جائے
جو آرامِ دل و جاں ہے وہ بے آرام ہو جائے
غمِ دل ہے مگر آخر غمِ دل کیا کہے کوئی
فسانہ مختصر ہو کر جب ان کا نام ہو جائے
محبت ہو چکی، اور ماتمِ انجام باقی ہے
وہ آنکھیں اشک بھر لائیں تو اپنا کام ہو جائے
جیا لیکن میرا جینا کسی کے بھی نہ کام آیا
میں مرتا ہوں کہ شاید زندگی پیغام ہو جائے
بڑی حسرت سے انساں بچپنے کو یاد کرتا ہے
یہ پھل پک کر دوبارہ چاہتا ہے خام ہو جائے
نشورؔ احبابِ خوش دل کو ذرا ہنس بول لینے دو
مصیبت ہے اگر احساسِ شاعر عام ہو جائے

نشور واحدی

No comments:

Post a Comment