جینے کی ہے امید نہ مرنے کا یقیں ہے
اب دل کا یہ عالم ہے نہ دنیا ہے نہ دِیں ہے
گم ہیں رہِ تسلیم میں طالب بھی طلب بھی
سجدہ ہی درِ یار ہے، سجدہ ہی جبِیں ہے
کچھ مظہرِ باطن ہوں تو کچھ محرمِ ظاہر
میری ہی وہ ہستی ہے کہ ہے اور نہیں ہے
ایذا کے سوا لذتِ ایذا بھی مِلے گی
کیوں جلوہ گہِ ہوش یہاں دل بھی کہیں ہے
مایوسی سہی حسرتئ موت ہو فانیؔ
کس منہ سے کہوں دل میں تمنا ہی نہیں ہے
اب دل کا یہ عالم ہے نہ دنیا ہے نہ دِیں ہے
گم ہیں رہِ تسلیم میں طالب بھی طلب بھی
سجدہ ہی درِ یار ہے، سجدہ ہی جبِیں ہے
کچھ مظہرِ باطن ہوں تو کچھ محرمِ ظاہر
میری ہی وہ ہستی ہے کہ ہے اور نہیں ہے
ایذا کے سوا لذتِ ایذا بھی مِلے گی
کیوں جلوہ گہِ ہوش یہاں دل بھی کہیں ہے
مایوسی سہی حسرتئ موت ہو فانیؔ
کس منہ سے کہوں دل میں تمنا ہی نہیں ہے
فانی بدایونی
No comments:
Post a Comment