Monday 21 September 2015

رہتے ہیں بدن دھوپ سے دوچار ہمارے

رہتے ہیں بدن دھوپ سے دوچار ہمارے
کس رخ پہ بنے ہیں در و دیوار ہمارے
تم کو تو قبیلے کی حفاظت پہ رکھا تھا
اور تم کہ بنے بیٹھے ہو سردار ہمارے
اب ان گلی کوچوں کو تو جانے کے نہیں ہم
دل پیچھے پڑا ہے یونہی بے کار ہمارے
جلدی تھی بڑی شوقِ سفر! تیرا برا ہو
ساحل پہ پڑے رہ گئے پتوار ہمارے
منسوب ہیں کس عہد سے پہچان تو لو گے
مل جائیں جو تم کو کہیں آثار ہمارے
سمجھا دیے خود راستے دشمن کو وہاں کے
اپنے تھے جہاں برسرِ پیکار ہمارے
لیکن نہ گئی دل سے رہائی کی تمنا
پر کاٹے ہیں صیاد نے سو بار ہمارے
ہر لہر نئے رنگ میں ڈھال آتی ہے واجدؔ
پانی پہ لکھے جیسے تھے کردار ہمارے

واجد امیر

No comments:

Post a Comment