رائیگانی تُو مِرے خواب کہاں پھینکتی ہے
کیا وہیں، خلق جہاں کارِ زیاں پھینکتی ہے
گھر کا آنگن کوئی مدفن تو بہاروں کا نہیں
خشک پتے یہاں کیوں لا کے خِزاں پھینکتی ہے
خاک کو خاک بناتی ہے، چلو مان لیا
دل کے بازار میں پہلے سے ہے مندی کا چلن
کیوں محبت یہاں سرمایۂ جاں پھینکتی ہے
اک سمندر ہے جہاں سِیپ پنپتی ہی نہیں
آستِیں پونچھے ہوئے اشک وہاں پھینکتی ہے
کاسۂ خاص میں رکھتی ہے یقیں کے سکے
عقل اوروں کی طرف وہم و گماں پھینکتی ہے
کچھ تو قدموں سے لِپٹ رہتے ہیں سائے کی طرح
روشنی سارے اندھیرے بھی کہاں پھینکتی ہے
واجد امیر
No comments:
Post a Comment