Wednesday 23 September 2015

جیسے مچلتی لہروں کا رخ کوئی کنارا جانے ہے

جیسے مچلتی لہروں کا رخ کوئی کنارا جانے ہے
وہ بھی ہماری آنکھوں کا ہر ایک اشارا جانے ہے
ہم کو سب معلوم ہے اپنی کون جگہ کب جیت ہوئی
یوں تو ہر کوئی دیکھنے والا ہم کو ہارا جانے ہے
چاند کو کیا معلوم ہماری رات کٹی تو کیسے کٹی
لیکن دیر سے چھپنے والا ایک ستارا جانے ہے
ہم نے اک اک قدم کو کیسے پھونک پھونک کر رکھا ہے
دنیا چاہے جانے نہ جانے دل تو ہمارا جانے ہے
کبھی تو اپنا حال سناؤ، کبھی ہماری بات بھی پوچھو
ڈوبنے والا تنکے کو بھی ایک سہارا جانے ہے

امان اللہ خالد

No comments:

Post a Comment