تجلیوں سے غمِ اعتبار لے کے اٹھا
سکوں نہیں تھا تو دل کا قرار لے کے اٹھا
گزرنے والے مسافر سے کی امیدِ وفا
ہر ایک رہ سے کوئی انتظار لے کے اٹھا
کیے جنوں میں یہاں تک سجودِ مجبوری
چمن میں غم کی بہاریں گزار دیں میں نے
وہاں سے اپنے نشیمن کے خار لے کے اٹھا
خزاں نصیب ہے دنیا، اسے خبر کیا ہے
بہار لے کے جو بیٹھا، بہار لے کے اٹھا
چمن سے کیوں نہ تعلق ہو صورتِ شبنم
وہ گر پڑا جو علائق کا بار لے کے اٹھا
حیات خیز ہے ہر رنگ میں ثبات نشورؔ
جو سنگ ہو کے بھی بیٹھا شرار لے کے اٹھا
نشور واحدی
No comments:
Post a Comment