Sunday 27 September 2015

کورے کاغذ پہ مرا نقش اتارے کوئی

کورے کاغذ پہ مِرا نقش اتارے کوئی
ایک مبہم سا میں خاکہ ہوں ابھارے کوئی
ناخدا بھی تو مِرے کام یہاں آ نہ سکا
اور پار اترا ہے لہروں کے سہارے کوئی
ایک مدت سے خموشی ہی خموشی ہے وہاں
چپ کے صحرا میں مِرا نام پکارے کوئی
اس جہاں میں تو سبھی دست نگر ہیں شاہدؔ
سامنے کس کے یہاں ہاتھ پسارے کوئی 

شاہد کلیم

No comments:

Post a Comment