جو خاکِ منتشر اک ساتھ کھیلی ہے زمیں زادے
وہ پھر اس دشتِ وحشت میں اکیلی ہے زمیں زادے
ہمیں معلوم ہے دو آتشا غم کس کو کہتے ہیں
کہ ہم نے بارشوں میں دھوپ جھیلی ہے زمیں زادے
مرے جاتے تھے جس کے واسطے ہم اک زمانے میں
غموں کی سنگباری جس کے چاروں اور رہتی ہے
خوشی ایسی ہی شیشے کی حویلی ہے زمیں زادے
مگر یہ موت کی گتھی کو سلجھانے میں الجھی ہے
اگرچہ زندگی خود بھی پہیلی ہے زمیں زادے
تجھے پھر کون پوچھے گا یہاں بازارِ دنیا میں
ترے کِیسے میں پیسا ہے نہ دَھیلی ہے زمیں زادے
ہمیں اک قریۂ پُر شور سے ہو کر گزرنا ہے
سو ہم نے خامشی ہمراہ لے لی ہے زمیں زادے
واجد امیر
No comments:
Post a Comment