Monday, 21 September 2015

مت سمجھنا کہ صرف تو ہے یہاں

مت سمجھنا کہ صرف تُو ہے یہاں
ایک سے ایک خُوبرُو ہے یہاں
پُر ہے بازارِ حُسن چہروں سے
جانے کس کس کی آبرُو ہے یہاں
کیسے آباد ہو یہ ویرانہ
وحشتِ کِذب چار سُو ہے یہاں
آنکھ کی پُتلیوں کو غور سے دیکھ
تیری تصویر ہُوبہُو ہے یہاں
کیسے تاریخ لکھی جائے گی
صرف تلوار اور گلُو ہے یہاں
تُو کہاں ہے خبر نہیں اے دوست
رات دن تیری گُفتگُو ہے یہاں
جھانکتا کون ہے گریباں میں
آئینہ کس کے رُوبرُو ہے یہاں
مقتلِ آرزو ہے دل واجدؔ
ہر تمنا لہُو لہُو ہے یہاں

واجد امیر

No comments:

Post a Comment